”جنسی بے راہ روی“ اور ”ایڈز“ کا عذاب

 

مفتی محمد وقاص رفیع

 

اس وقت عالمِ انسانیت جن مہلک امراض اور جن نت نئی بیماریوں سے دو چار ہے، وہ محتاجِ بیاں نہیں ۔بلڈ پریشر، شوگر، کینسر، اور ایڈز وغیرہ ایسی بیماریاں ہیں جن کا نام تک آج سے پہلے کسی نے نہیں سنا ہوگا ۔ یہ نت نئی، مہلک اور انتہائی خطرناک بیماریاں کیسے عدم سے وجود میں آئیں ؟ اس سوال کا جواب حدیث پاک میں موجود ہے؛ چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے،نبی پاک ا نے ارشاد فرمایا : ترجمہ:”جب بھی کسی قوم میں فحاشی و عریانی کا رواج بڑھتا ہے؛ یہاں تک کہ وہ کھلم کھلا بے حیائی کرنے پر تل جاتے ہیں تو ایسے لوگوں کے درمیان طاعون اور اس جیسی ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان کے گزرے ہوئے اسلاف کے زمانے میں موجود نہیں تھیں۔“ (سنن ابن ماجہ)

بلا شبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی سچ ثابت ہورہی ہے ۔ آج عالمِ انسانیت میں نئی سے نئی بیماریاں سامنے آرہی ہیں، ان میں سے بہت سی بیماریاں تو ایسی ہیں، جن کا پہلے تو نہ کوئی تصور تھا اور نہ ہی ان کا نام کہیں سنا گیا تھا اور بہت سی بیماریاں ایسی ہیں کہ پہلے اگر کہیں اِکَّا دُکّا کسی کو ہوجاتی تھیں تو ایک انھونے عجوبے کی طرح ان کا شور مچ جاتا تھا؛ لیکن آج وہی بیماریاں بستی بستی پھیل گئی ہیں اور ان میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد روز افزوں ہوتی جارہی ہے ۔ ان تمام ہی بیماریوں کو مذکورہ بالا حدیث نبوی ا کا مصداق قرار دیا جاسکتا ہے؛ اس لیے کہ عالمِ انسانیت میں جس رفتار سے فحاشی و عریانی بڑھتی جارہی ہے،اسی رفتار سے ان بیماریوں میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

 ان بیماریوں میں ایک مہلک بیماری ”ایڈز“ کی بھی ہے، جس نے سب سے پہلے ۱۹۸۱ء میں امریکہ میں جنم لیا تھا اور اس بیماری کو سوائے ”زنا اور جنسی بے راہ روی کے نتیجہ میں جنم لینے والے عذابِ سماوی“ کے کسی اور عنوان سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا ۔

”ایڈز“ وہ مہلک بیماری ہے جس میں انسان کے بدن کا وزن گھٹنے لگتا ہے، بخار اوردست وغیرہ کی علامات نمایاں ہوتی رہتی ہیں، دماغ بھی اس سے متاثر ہوجاتا ہے؛ لیکن اس بیماری کی خطرناک اور خوف ناک ترین صورت یہ ہوتی ہے کہ اس بیماری میں مریض کے جسم سے ہر قسم کی قوتِ مدافعت ختم ہوجاتی ہے؛ چنانچہ اس کے بعد خفیف سے خفیف بیماری کا بھی اس میں تحمل اور قوتِ برداشت نہیں رہتی؛ یہاں تک کہ ایک معمولی سا عارضہ بھی جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے؛ چنانچہ اس بیماری میں مبتلا ہونے والے شخص کی موت یقینی سمجھی جاتی ہے ۔

اس مہلک اور خطرناک قسم کی بیماری کا سو فی صد علاج اور حل تاہنوز دریافت نہیں ہوسکا،بڑی کدو کاوش کے بعد جو دوائیں ایجاد ہوئی ہیں، وہ صرف عارضی تدابیر کی حیثیت رکھتی ہیں، جن سے عوارض کی شدت میں گوکہ وقتی افاقہ ہوجاتا ہے؛ لیکن ان سے مرض ختم نہیں ہوتا؛ بلکہ ان میں سے بعض دوائیں کچھ اور پیچیدگیاں پیدا کردیتی ہیں، جن میں خون کی حد سے زیادہ کمی اور غشی وغیرہ داخل ہیں، بعض دواوٴں کے استعمال کے دوران ہر ہفتے مریض کے جسم کا سارا خون تبدیل کرنا لازمی ہوجاتا ہے۔

بہرحال ڈاکٹر حضرات اب تک کی تحقیق و جستجو اور ریسرچ کرنے کے بعد جس نتیجے پر پہنچے ہیں، وہ یہ ہے کہ اس بیماری کا سب سے بڑا سبب رگ کے انجکشن کے ذریعے منشیات کا استعمال اور جنسی اختلاط کی کثرت ہے اور یہ یاتو ہم جنسی (غیر فطری عمل)سے پیدا ہوتی ہے، یا ایسے مردوں کو لگتی ہے جو بغیر کسی امتیاز کے زیادہ عورتوں سے جنسی تعلقات قائم رکھتے ہوں، نیز ایسی عورتوں کو جو زیادہ مردوں سے جنسی تعلقات استوار کرتی ہوں۔

اٹلانٹا کے طبی مرکز کے ماہرین کے مطابق جو لوگ بلا امتیاز مختلف افراد سے جنسی تعلق قائم رکھتے ہیں، ا ن میں اس بیماری کی بنا پر اموات کی شرح دودہائی قبل کے مقابلے میں دوگنی ہوگئی ہے؛ لیکن اس بیماری کا تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ اس کا جرثومہ جسم میں داخل ہوجانے کے بعد ظاہری مرض کی شکل اختیار کرتے کرتے مختلف افراد میں مختلف اوقات لے لیتا ہے ۔ بعض ماہرین کے خیال کے مطابق یہ موت دس سال تک وسیع ہوسکتی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ جس جنسی عمل کے ذریعے بیماری کا جرثومہ جسم میں داخل ہوا، ضروری نہیں کہ اس کے بعد جلد ہی اس کے اثرات بیماری کی شکل میں ظاہر ہوجائیں؛ بلکہ بعض اوقات یہ اثرات دس سال بعد بھی ظاہر ہوسکتے ہیں ۔ اس حقیقت کو مدِنظر رکھتے ہوئے محکمہ صحت کا اندازہ یہ ہے کہ اس وقت امریکہ میں دس لاکھ سے زیادہ افراد ”ایڈز“ کے جراثیم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں اور ان میں سے بھی نوے فی صد افراد کو اپنے بارے میں اس ہولناک حقیقت کا علم بھی نہیں۔

امریکہ کے علاوہ بر اعظم افریقہ میں بھی یہ بیماری کافی تیزی سے پھیل رہی ہے اور افریقہ میں بیس لاکھ سے لے کر پچاس لاکھ تک کے انسانوں کی تعداد ”ایڈز“ جیسے مہلک مرض میں مبتلا ہوچکی ہے۔ امریکہ کے” محکمہٴ صحت و انسانی خدمات“ کے سیکٹری اولٹس باون کا کہنا ہے کہ ”اگر ہم اس بیماری کی روک تھام میں کوئی موٴثر پیش رفت نہ کرسکے تویوں سمجھ لیں کہ آئندہ دس سال کے اندر دنیا کے کروڑوں انسانوں کے لیے ایک عالم گیر موت کے پیغام کا خوفناک اندیشہ پیدا ہوگیا ہے“ اور جان پاپ کنس یونیورسٹی کے ماہر وبائی امراض بی فرینک پاک نے کہا ہے کہ ”بعض ملک اپنی آبادی کا ۲۵/فیصد حصہ اس وبائی مرض میں گنوا بیٹھیں گے۔“

 ایک حالیہ رپوٹ کے مطابق تو ہندوستان میں بھی یہ فحاشی و عریانی اور جسم فروشی ”ایڈز“ پھیلنے کا سبب بننے لگ گئی ہے؛ چنانچہ ہندوستان میں گزشتہ ۱۷ ماہ میں ہسپتالوں میں انتقالِ خون کی وجہ سے کم از کم ۲۳۴,۲ افرادمہلک (ایچ آئی وی) وائرس کا شکار ہوگئے ہیں ۔ یہ تفصیلات” نیشنل ایڈز کنٹرول آرگنائزیشن “ کے ایک بیان سے سامنے آئی ہیں جو انھوں نے عدالت میں ایک درخواست کے جواب میں جمع کرائی ہیں ۔ در اصل عدالت میں درخواست ایک سماجی کارکن چیتن چوٹاری نے دائر کرائی تھی اور ”ایڈز“ سے متاثر ہونے والے افراد کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی استدعاء کی تھی ۔

تفصیلات کے مطابق ہندوستان میں تقریباً ۲۹ لاکھ افراد ”ایڈز“ جیسے موذی مرض میں مبتلا ہیں۔ معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت دائر کردہ درخواست کے ردِّ عمل میں جو معلومات سامنے آئی ہیں، اُن کے مطابق اترپردیش میں خون کے انتقال کی وجہ سے ”ایڈز“ میں مبتلا ہونے والے افراد کی تعداد سب سے زیاد ہ ہے ۔ اتر پردیش میں ۳۶۱ افراد انتقالِ خون کے بعد اس مرض کا شکار ہوئے ہیں ۔ اترپردیش کے علاوہ گجرات میں ایسے افراد کی تعداد ۲۹۲ ہے؛ جب کہ مہارا شٹر کے ۲۷۶ افراد اس موذی مرض (ایچ آئی وی) کا شکار ہوئے ہیں۔ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں بھی ایسے ۲۶۴ افراد سامنے آئے ہیں، جن میں انتقالِ خون کی وجہ سے (ایچ آئی وی) وائرس منتقل ہوا ہے۔چیتن چوٹاری نے مزید اس خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ ایسے لوگوں کی اصل تعداد اس اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے ۔

ہندوستان میں قانون کے تحت ہسپتالوں اور طبی مراکز کے لیے یہ بات لازمی قرار دی گئی ہے کہ وہ خون لینے سے پہلے خون عطیہ کرنے والوں کا معائنہ کریں کہ کہیں انھیں ایچ آئی وی، یرقان اور ملیریا تو نہیں ہے ۔ بالکل اسی طرح عطیہ کیے جانے والے خون کا بھی ٹیسٹ کیا جانا قانوناً لازمی قرار دیا گیا ہے۔

اس طرح کے ہر ٹیسٹ پر بارہ سو روپے کا خرچ آتا ہے اور ہندوستان کے تمام ہسپتالوں میں یہ ٹیسٹ کرانے کی سہولت بھی موجود نہیں ہے۔

چیتن چوٹاری کے بہ قول بڑے بڑے ہسپتالوں میں بھی ایچ آئی وی کا ٹیسٹ کرانے کی ٹیکنالوجی دستیاب نہیں ہے، چوٹاری نے مزید کہا کہ ”یہ بڑی تشویش ناک صورتِ حال ہے اور اس کا فوری طور پر نوٹس لیا جانا چاہیے“۔

یہ صورتِ حال تو غیر مسلموں کی تھی جو اوپر بیان ہوئی ہے؛ لیکن الحمد للہ! ہمارا مسلمان معاشرہ ابھی پستی کی اس انتہا کو نہیں پہنچا جو پیچھے ذکر ہوئی؛لیکن نہ جانے کتنے اسباب و عوامل ایسے ہیں جو اسے نہایت برق رفتاری کے ساتھ اسی انتہا کی طرف گھسیٹ کر لے جانا چاہ رہے ہیں ۔ عفت و عصمت اور شرافت و اخلاق کی قدریں بہت تیز رفتاری سے مٹ رہی ہیں، بے پردگی، مرد و زن کا آزادانہ میل جول، سینما گھر، انٹر نیٹ، کیبل،ڈش، مخلوط نظامِ تعلیم، گانے بجانے،رقص و ناچ اور ہرشعبہٴ زندگی میں عورتوں کا مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کرنا وغیرہ یہ ایسے عوامل ہیں جو ہمیں اسی تباہی کی طرف دھکیلے جارہے ہیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ یہ تمام تر سہولیات ہم نے اپنے گھروں، اپنے مکانوں اور اپنے دفتروں میں بہم پہنچارکھی ہیں؛ تاکہ ہم اس متعفن یورپی تہذیب کے فحش ا و ربے ہودہ قسم کے مناظر گھر بیٹھے بآسانی دیکھ سکیں اور اس کے نتیجہ میں جنسی بے راہ روی کی صورت میں جنم لینے والی یہ ”ایڈز“کی بیماری ہمارے فرد در فرد اور نسل در نسل پھیل سکے۔

$$$

 

------------------------------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ1۔2، جلد:101 ‏، ربیع الآخر۔جمادی الاولی 1438 ہجری مطابق جنوری۔فروری 2017ء